یہ کتاب در اصل استعمار کی جارحیت اور دراندازیوں کا روزنامچہ ہے۔ یہ کرنل کیلی کی کمان میں نکلے ہوئے اس دستے کی کہانی ہے جوقلعہ چترال میں محصور اپنے ساتھیوں کو چھڑوانے کے لیے نکلا تھا۔ یہ کہانی اور بھی دلچسپ ہوسکتی تھی اگر اس دستے کو ہر دومیل کے بعد خون ریز مزاحمت کا سامنا ہوتا ۔ دستے میں شامل خون خوار تو پچی کیپٹن سٹوارٹ یہی شکایت کرتا ہوا دنیا سے گزر گیا کہ چترال کے لوگوں نے جنگ کا موقع نہیں دیا۔ کھانے کوݰاپک تو بہت ملا، پینے کو خون نہیں ملا۔ اقبال کی ترتیب میں شمشیر و سناں اول ہے اور طاؤس و رباب آخر ہے۔ چترال کی ترتیب میں طاؤس و رباب اول ہے اور طاؤس و رباب ہی آخر ہے۔ انہیں بندوق پڑ ادوتوی خوبانی کا پھول توڑ کر اس کی نال میں اٹکا دیتے ہیں۔ گاہے یہ ستار کی تاریں آدھیڑ کے بندوق کی نال اور دستے کا پیچ اٹکا دیتے ہیں ۔ میدان کی طرف جانے کی بجائے دریا کی طرف نکل جاتے ہیں ۔ محبت کے گیت گاتے ہیں اور بہار کے دھن بکھیرتے ہیں۔ گولی کو پانی میں ڈبو کر شعر لکھتے ہیں۔ محنت سے کیے ہوئے ترجمے کا مواد ضائع ہو جائے تو دل چھوٹا نہیں کرتے۔ پھر سے کر دیتے ہیں ۔
گلگت سے چترال تک
₨500.00
50 in stock (can be backordered)
نام کتاب: گلگت سے چترال تک
ایک فوجی مہم کی سنسی خیز کہانی
مصنف: لیفٹنٹ ولیم جارج لارنس بینن
مترجم: نور شمس الدین شمسیؔ